Pages

نصیر الدین شاہ کو ایک موقعے کی تلاش

نصیر الدین شاہ کو پاکستانی مداح اور پاکستانیوں کو نصیرالدین شاہ اتنے پسند آ گئے ہیں کہ وہ پاکستان آنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے۔
اس بار وہ لاہور لٹریچر فیسٹیول میں آنے والے تھے تو کراچی والوں نے بھی ان کے ساتھ وقت گذارنے کے پروگرام بنا لیے۔
اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس، او یو پی نے یادداشتوں پر مبنی ان کی خود نوشت کے اجرا کا اعلان کیا اور کراچی آرٹس کونسل نے ان کے ساتھ نئے اداکاروں کا ایک تربیتی ورکشاپ۔
او یو پی میں ان کی کتاب ’اور پھر ایک دن‘ کے اجراء کی تقریب ذرا مختلف تھی۔ پہلے او یو پی کی منیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید نے نصیر الدین شاہ کا خیرمقدم کیا اور بتایا کہ انھوں نے جتنی کتابیں آج کی تقریب کے لیے منگائی تھیں وہ تمام کی تمام فروخت ہو چکی ہیں۔
اس کے بعد ناز اکرام اللہ نے نصیرالدین شاہ کے بارے میں ایک مضمون پڑھا اور پھر سٹیج پاکستانی فلم ’زندہ بھاگ‘ کے ڈائریکٹر مینو گور کے سپرد کر دیا گیا جو نصیر الدین شاہ سے مکالمہ کرنے والی تھیں۔
مینوگور کے بہت سے سوال ایسے تھے جن کا جواب نصیر الدین شاہ اپنی یادداشتوں کی کتاب میں بھی دے چکے ہیں۔
ابتدائی دنوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ 16 سال کے تھے جب فلموں میں کام کرنے کے لیے ممبئی آئے۔ پہلے ایک دوست کے ہاں ٹھہرے جو ظاہر ہے بے روزگار مہمان سے جلد ہی تنگ آ گئے۔
اگلا ٹھکانہ ایک گودام تھا۔ اسی دوران انھیں ’امن‘ اور ’سپنوں کا سوداگر‘ میں ایکسٹر کا کام ملا۔
نصیر الدین شاہ نے بتایا کہ اسی دوران وہ دلیپ کمار سے بھی ملنے گئے۔ دلیپ ان کے والد کے شناسا تھے۔ دلیپ کمار نے سارا قصہ سن کر کہا ’میاں! اچھے گھروں کے بچے ایسے کاموں میں نہیں پڑتے۔ گھر لوٹ جاؤ اور جا کر تعلیم مکمل کرو۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان کا دل تو چاہا کہ وہ دلیپ سے پوچھیں کہ وہ جو اس کام میں پڑے ہیں تو ان کا اپنا خاندانی پس منظر کیسا ہے؟
نصیر الدین دلیپ کمار کو پسند کرتے تھے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتایا کہ دلیپ کمار ایک ہی اداکار کو دنیا کا بڑا اداکار مانتے ہیں اور وہ ہے دلیپ کمار۔
اداکاری کی تربیت کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سائنس، ریاضی اور دوسرے بہت سے مضامین کی طرح اداکاری سیکھنے کا مضمون نہیں ہے۔ عام طور پر اداکاری سکھانے پڑھانے کے اداروں میں وہ لوگ اداکاری پڑھاتے اور سکھاتے ہیں جنھیں خود اداکاری کا کام نہیں ملتا۔

معروف اداکار کا کہنا تھا کہ اداکاری کو ایک خواب کی تکمیل کے طور پر نہیں بلکہ ایک پیشے کے طور پر اپنانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا ’اکثر نوجوان ان سے ملتے ہیں تو یہی پوچھتے ہیں کہ اداکار کیسے بنا جائے تو ان کا بھی پہلا مشورہ یہی ہوتا ہے کہ جاؤ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرو‘۔
نصیر الدین کا کہنا تھا کہ ہم اندازہ نہیں کر سکتے کہ گائیک اور رقاص اپنے کام میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کتنی ریاضت کرتے ہیں اور ساری عمر کرتے رہتے ہیں لیکن اداکاری مختلف کام ہے۔ اداکاری سکھائی جاتی بلکہ اداکاری کے لیے آنے والوں کی شخصیت بنائی جاتی ہے۔
انھوں نے پونا میں اپنے استادوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور ساتھ ہی کہا کہ اداکاری نہ تو کتابوں سے سیکھی جا سکتی ہے اور نہ ہی سکولوں سے، ہاں زندگی سے سیکھی جا سکتی ہے کیوں کہ زندگی ہی سب سے بڑی استاد ہے۔


ڈرامہ سیریل ’غالب‘ میں اپنے کردار کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کردار خود ہی ان کی گود میں آ گرا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ فلم انسٹیٹیوٹ میں تھے۔ انھوں نے افواہ سنی کہ گلزار صاحب ’غالب‘ پر فلم بنا رہے ہیں اور اس میں ’غالب‘ کے کردار کے لیے سنجیو کمار کو لینا چاہتے ہیں۔
نصیر الدین کے مطابق انھوں نے گلزار صاحب کو خط لکھا اور کہا ’سنا ہے آپ غالب پر فلم بنا رہے ہیں اور اس کے لیے سنجیو کمار کو لے رہے ہیں، اگر آپ نے سنجیو کو لیا تو بڑا ظلم ہو گا کیوں کہ سنجیو غالب کے کردار کو برباد کر دیں گے اس لیے کہ انھیں اردو نہیں آتی اس کردار کے لیے صرف میں ہی مناسب ہوں اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ میں میرٹھ کا ہوں، جہاں سے غالب کو شراب ملتی تھی اس میں پہلی بات جھوٹ تھی کیوں کہ میں میرٹھ کا نہیں ہوں۔ دوسری بات یہ کہ میں غالب کی تمام شاعری پڑھ رکھی ہے اور یہ بات بھی درست نہیں تھی۔ کیوں کہ میں نے غالب کی شاعری سرسری اور بہت کم پڑھی تھی۔‘
خیر یہ خط کبھی گلزار صاحب تک نہیں پہنچ سکا اور فلم بھی فلم بھی مالی امور کی وجہ سے نہیں بن سکی۔

ڈرامہ سیریل ’غالب‘ کے بارے میں نصیر الدین نے بتایا کہ اس میں ’غالب‘ کا کردار ان کی گود میں خود آ گرا اور اس کی کامیابی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے اس کا سکرپٹ ہی اتنا عمدہ لکھا ہوا تھا کہ اسے خراب کرنا ممکن نہیں تھا۔
سٹار بننے اور مقبولیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا ’کون سٹار نہیں بننا چاہتا؟ ہم سب فلموں میں آتے ہی اس لیے ہیں کہ پسند کیے جائیں، نام اور شہرت کمائیں اور مقبول ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھی کئی مقبول فلمیں کی ہیں لیکن میں ان کا ہو کر نہیں رہا۔
انھوں نے کہا کہ اچھی فلموں اور اچھی اداکاری کے بارے فیصلے کرنے کا کوئی ایک معیار اور پیمانہ نہیں ہے۔
بھارتی اداکار کے مطابق بولی وڈ میں مسالہ فلمیں بنتی ہیں اور بہت بنتی ہیں تو ہالی ووڈ میں بھی خراب فلموں کی تعداد کم نہیں ہے لیکن وہاں ’دی ایمیٹیشن گیم‘ اور ’دی تھیوری آف ایوری تھنگ‘ جیسی فلمیں بھی بنتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ بولی وڈ کی مقبولیت کا سلسلہ بہت زیادہ چلنے والا ہے۔
آخر میں انھوں نے کہا ’مجھے اب تک اپنے امکانات کو پوری طرح استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا اور میں چاہتا ہوں عمر کے اس مرحلے میں کہ مجھے اپنی پوری صلاحت کے اظہار کا ایک موقع ملے۔‘