جمعرات سے پاکستان کے سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش
کی جانے والی فلم ’دختر‘ میں بچیوں کی کم عمری میں شادیوں کا مسئلہ پیش
کیا گیا ہے۔
تاہم یہ فلم اسی پہلو تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک
ایسی ماں کی کہانی بھی ہے جو اپنی بیٹی کے لیے ایک عام انسانی زندگی حاصل
کرنے کے لیے بغاوت کرتی ہے اور بیٹی کے لیے اپنی زندگی کو بھی داؤ پر لگا
دیتی ہے۔
دختر کی کہانی میں ایک سردار ایک طویل
خونی جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے مخالف قبیلے کے عمر رسیدہ سردار کو اپنی کم
عمر بیٹی کا رشتہ دینے پر تیار ہو جاتا ہے۔
جب سردار دولت خان (آصف خان) کی بیوی اللہ رکھی
(سمیعہ ممتاز) اور لڑکی صالحہ عارف (زینب) کی ماں کو اس فیصلے کا علم ہوتا
ہے تو اُس کے پاس بیٹی کو رسم و رواج سے بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی راہ
دکھائی نہیں دیتی کہ وہ دس سالہ بیٹی کو لے کر کہیں فرار ہو جائے۔........
وہ گھر سے نکلتی ہے تو اس کا تعاقب بھی شروع ہو جاتا ہے۔ فرار، موت اور زندگی کی جدوجہد بن جاتا ہے۔
پکڑے جانے کی صورت میں موت یقینی ہے کیونکہ وہ صرف
اپنے شوہر اور اُس کے قبیلے کی نام نہاد عزت کو کو لے کر ہی نہیں بھاگ رہی
ہے بلکہ اُس سردار اور اُس کے قبیلے کی عزت کو داغ دار کر چکی ہے جس کی
زوجیت میں کمسن زینب کو دیا جانے والا ہے۔
اس فرار میں ماں بیٹی کو خشک مزاج اور سابق شدت پسند ٹرک ڈرائیور سہیل (محب مرزا) ملتا ہے جو ان کے لیے امید کی کرن بن جاتا ہے۔
پاکستان میں تو کیا شاید دنیا میں بھر میں بھی
فلمیں دیکھنے والے ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہو گی جن کے لیے موضوع
اچھوتا نہیں ہو گا۔
لیکن بہت سوں کو یہ موضوع نیا اور اچھوتا لگے گا،
خاص طور پر اس لیے کہ اسے جس انداز اور پس منظر میں فلمایا گیا ہے وہ
یقیناً فلم بینوں کے لیے دلچسپ ہو گا۔
قبائلی علاقے اور ثقافتی پس منظر نے فلم کے لیے لاؤڈ ڈرامائی ماحول کی خاصی گنجائش پیدا کر دی ہے۔
دشوار گزار اور انتہائی سرد موسم میں ہُنزہ،
سکردو، گلگت اور کلر کہار میں فلمائی جانے والی یہ پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور
مصنف عافیہ نتھینیل کی پہلی فیچر فلم ہے۔
وہ اس سے پہلے کم دورانیوں کی کئی فلمیں بنا چکی
ہیں۔ ان کا تعلق لاہور سے ہے اور سینما کی طرف جانے اور کولمبیا یونیورسٹی
سے فلم سازی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے پہلے انھوں نے ریاضی اور
کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کی۔
عافیہ نے اپنے اظہار کے لیے سنیما کو کیوں منتخب کیا اور انھیں اس فلم کا خیال کیوں کر آیا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ جو پھر کسی وقت۔
فلم میں سمیعہ ممتاز، محب مرزا، صالحہ عارف اور
عدنان شاہ نے بالخصوص عمدہ کام کیا ہے جب کہ آصف خان، عجب گل، عبداللہ جان،
ثمینہ احمد اور عمیر رانا نے کرداروں کے تقاضے بخوبی نبھائے ہیں۔
دختر پہلی پاکستانی فیچر فلم ہے جو پاکستان میں
نمائش کے لیے پیش ہونے سے پہلے خاصی حد تک عالمی پذیرائی اور کئی ایوارڈ
حاصل کر چکی ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں فلموں کو
کمرشل اور آرٹ فلموں کے خانوں میں بانٹا جاتا ہے لیکن ایک تیسرا خانہ بھی
ہے جس میں آرٹ اور کمرشل کا امتزاج ہوتا ہے۔
اس حوالے سے عافیہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے
کہا: ’فلمیں دیکھنے والے کئی طرح کے ہیں اور ہر فلم اپنے لیے اپنے دیکھنے
والوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سب کو اپنی اپنی فلم بنانی چاہیے، ہم
نے بھی یہی کوشش کی ہے کہ یہ فلم دوسری فلموں سے الگ ہو۔‘
عافیہ بڑی حد تک اس کوشش میں کامیاب رہی ہیں لیکن فلم کیسی ہے اس کا آخری فیصلہ اُس کے دیکھنے والوں کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔
دختر پاکستان میں کیسے اور کتنے لوگوں کو توجہ
حاصل کرتی ہے، یہ فیصلہ تو اگلے چند ہفتوں میں ہو ہی جائے گا لیکن پاکستانی
سنیما کی بحالی کے لیے گذشتہ کئی سال سے جو کوششیں ہو رہی ہیں اُس میں
یقیناً دختر کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
فلم کی سنیماٹوگرافی اور ایڈیٹنگ کے لیے ارمغان
حسن اور نجف بلگرامی کو خصوصی داد ملنی چاہیے۔ انھوں نے زبردست کام کیا ہے۔
خاص طور پر اس لیے بھی کہ فلم کا بڑا حصہ آؤٹ ڈور پر مشتمل ہے۔
فلم کی اثر انگیز موسیقی ساحر علی بگا نے ترتیب دی
ہے اور راحت فتح علی خان، شفقت امانت علی اور سارہ رضا خان کی آواز میں
فلم کے گانے اجرا سے پہلے ہی خاصی مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔
زمبیل فلمز کی یہ فلم جیو فلمز کے تعاون سے ریلیز
کی جا رہی ہے۔ کراچی میں بدھ کی رات اس کا پریمیئر بھی جیو فلمز کے تعاون
سے ہی ہوا۔
پریمیئر میں نہ صرف میڈیا کے لوگوں کی بھر پور
نمائندگی تھی بلکہ نئے اور سینیئر اداکاروں کی بھی بڑی تعداد تھی جن کا
کہنا تھا کہ انھیں فلم پسند آئی ہے۔